اس وقت جب کہ ہندوستان میں مسلمان تاریخ کے ایک بڑے جبر سے دوچار کر دیا گیا ہے اس پر فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنی اجتماعی ذکاوت کو تحریک دے کر ایک ایسا ماحول بنانے میں کامیاب ہو جس میں تصور ہندوستان کی سلامتی اور بقا یقینی بن سکے۔ شہریت ترمیمی بل،آبادی کا قومی رجسٹر اور ملک بھر میں ممکنہ قومی شہری رجسٹر سے جو ہیجان پیدا ہوا ہے اس ہیجان کی بنیاد اس فہم میں ہے کہ ہندوستانی مسلمان کا وجود خطرے میں پڑ گیا ہے۔ ملک کی قیادت اس وقت دو ایسے کم پڑھے لکھے لوگوں کے ہاتھ میں ہے جن کو ہندو،ہندوستان،تاریخ،اقتصادیات،دینیات،فلسفہ اور سیاست میں سے کسی چیز کی مکمل سمجھ نہیں ہے۔ وہ ایک محدود زاویے سے انسان اور انسانیت دونوں کو دیکھتے ہیں اور انہوں نے اپنی اسی محدود سمجھ کو ہندوستانی عوام کی فکر اور عمل کا حصہ بنانے کی لگاتار کوششیں کیں اور ملک کو ہندو اور مسلمان کے بیچ ایک گہری تقسیم سے دوچار کرنے کا آخری حربہ بھی استعمال کر لیا لیکن یہی داؤں وزیر اعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کو الٹا پڑ گیا۔ ہندوستانی مسلمان کے وجود کو نیست ونابود کرنے کی کوشش میں ان دونوں نے ایسا ماحول بنایا جس میں ہندوستانی آئین کی بھیانک خلاف ورزی ہو گئی اور بلا تفریق مذہب وملت پورا ہندوستان سڑکوں پر آگیا۔ ان مظاہرین میں مسلمان بھی شامل ہوئے لیکن عاقبت نا اندیشی کی وجہ سے مسلمانوں کی شرکت،مسلمانوں کا غلبہ بنتی دکھا ئی دی اور پولیس نے ان مظاہروں کو مسلمان بمقابلہ پولیس بنا دیا۔
اگر دیکھا جائے کہ اس میں ہوا کیا ہے تو دو اہم باتیں ابھر کر سامنے آتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ مسلمان کا ضبط ختم ہوگیا۔ ماب لنچنگ ہوئی مسلمان خاموش رہا، جبری تبدیل مذہب کی وارداتیں ہوئیں مسلمان خاموش رہا، لو جہاد کا نعرہ لگا مسلمان خاموش رہا،تین طلاق بل آیا مسلمان خاموش رہا، بابری مسجد آراضی کی ملکیت کا مقدمہ سپریم کورٹ سے فیصل ہونے کی بجائے پنچایت میں بدل گیا، مسلمان خاموش رہا۔ کیونکہ مسلمان سڑکوں پر نکل کر دیگر برادران وطن کے ساتھ اسٹیٹ کے خلاف، پولیس کے خلاف اپنے لئے منفی جذبات نہیں ابھارنا چاہتا تھا۔ اس دوران آرایس ایس نے ایک ایک کر کے تمام بااثر علما،آئمہ،مشائخ کو نہ صرف اپنے جال میں لیا بلکہ ایک منصوبہ بند طریقے سے ان ملی رہنماؤں کو ہندوستانی مسلمان کے سامنے بے نقاب بھی کرتا چلا گیا۔نوبت یہاں تک پہنچی کہ ہندوستانی مسلمان نے ملی رہنماؤں کو اپنا رہنما ماننے سے صاف انکار کردیا۔ ہندوستانی مسلمان کا آج کا بیانیہ یہ ہے کہ کوئی بھی عالم،امام،شیخ یا کسی بھی طرح سے مسلم کلرجی کا رکن کوئی شخص مسلمانوں کا نمائندہ نہیں۔ اس کا ہر بیان ذاتی بیان ہے ملت کی ترجمانی نہیں۔ یہ زوال دو طرف سے آیا ایک تو علما،آئمہ اورمشائخ نے اپنی ملی ذمہ داریوں کی طرف سے قابل گرفت غفلت برتی۔دوسرے اس زعم میں رہے کہ انہیں مسلم معاشرے میں جو احترام حاصل ہے اس کی بنیاد پر وہ ملت کا سودا تھوک بھاؤ میں کسی کے ساتھ بھی کر سکتے ہیں۔ یہ مثالیں سب کے سامنے ہیں کہ ہمارے علما،آئمہ اور مشائخ نے انتہائی بے رحمی کے ساتھ ہمارا سودا کیا۔کبھی کانگریس کو بیچا،کبھی سماج وادی پارٹی سے سودا کیا،کبھی مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی کے ساتھ معاملات کئے۔کبھی لالو سے،کبھی نتیش سے،کبھی دیو گوڑا سے،کبھی ممتا بنرجی سے،کبھی کے سی راؤ سے،کبھی جگن سے،کبھی کے چندرا بابو سے ملت کا سودا کرتے رہے اور اس سودا بازی میں اس کا بالکل لحاظ نہیں رکھا کہ ملت گائے بکریوں کا ریوڑ نہیں انسانی سرمایہ ہے اور انسانی سرمایہ کو اس کی مرضی کے بغیر بیچا جائے تو ایک طرح کی بد دلی پیدا ہوتی ہے۔ آخر میں جب آر ایس ایس کے ساتھ ملت کی خاموشی کا سودا کیا گیا اور آرایس ایس نے اس سودا بازی کو بے نقاب بھی کر دیا تو ملت نے اپنے ملی رہنماؤں سے اپنے آپ کو دور رکھنے کا اعلان کیا یعنی ملی قیادت کی مسماری کا اہتمام دو طرف سے ہوا۔ علما،آئمہ،مشائخ کسی نہ کسی چیز کے عوض ملت کی خاموشی بیچ کر اس داخلی طاقت سے محروم ہوگئے جس کی بنا پر وہ عوام میں ہوتے تھے اور دوسری طرف آرایس ایس نے پورے ہندوستان کو یہ بتایا کہ مسلمانوں کی قیادت خریدی جا سکتی ہے۔ گوکہ علما،آئمہ اور مشائخ نے باربار اپنا بیانیہ بدلا۔ تقاضہ،تدبر،حکمت جیسے الفاظ سے اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالا دینے کی کوشش کی لیکن تب تک معاملات بگڑ چکے تھے۔ ملت میں یہ سوالات اٹھنے لگے تھے کہ غریب اور کمزور مسلمانوں کی دستگیری کے لئے جو تمام ادارے مسلمانوں میں قائم کئے گئے ہیں ان اداروں کا پورا پورا استعمال مولویوں کو بنانے کے لئے کیا جاتا ہے۔ فطرہ،زکوٰۃ،خیرات،صدقات،چندہ،نذرانہ،چرم،چاول،آٹا،ٹوپااور فیاضی جیسے تمام اداروں سے ملت کا جو پیسہ دیگر ہم مذہبوں کی دستگیری کے لئے استعمال ہو، ہو سکتا ہے وہ سیدھے مدرسوں میں جا رہا ہے اور مدرسوں میں تعلیم پا کرہر سال ہزاروں کی تعداد میں ایسے لڑکے باہر نکل رہے ہیں جو اپنی تعلیم اور تربیت سے قوم کی خدمت کرنے کے بجائے ہر بظاہر مفت قیمت کے بدلے فیس وصول کرتے ہیں اور اوپر سے یہ تقاضا بھی کرتے ہیں کہ ملت اسلامیہ کے دیگر لوگ ان کے ہاتھ چومیں،پیر چومیں،پان کی پیک تھوکنے کے لئے ان کی سلابچی ہاتھوں میں لئے کھڑے رہیں۔یہ برسوں کا جمع ہوا غصہ تھا جو ملّائیت کے خلاف باہر نکل آیا اور ہندوستانی مسلمانوں نے ملی رہنماؤں کی قیادت کو قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ آرایس ایس کی حمایت میں بیان بازی کا سلسلہ اب بھی نہیں تھما ہے۔کچھ لوگ علمائے حق اور علمائے سو کے درمیان فرق کھڑا کرکے اس ذہنی رو کو بہکانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن یہ ملت کے ہمدرد نہیں بلکہ مسلم کلرجی کے وہ تنخواہ دار ہیں جن کے ذمہ ہر مخالف کو خاموش کرنے کے لئے پراکسی جنگ چھیڑنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ یہ صورت حال خطرناک ہے کیونکہ غصے میں جو بھیڑ باہر نکلی اس کو سمت دکھانے والا کوئی نہیں تھا۔ جمعہ جلوس نکالے گئے،سبز پرچم لہرایا گیا،اشتعال انگیز نعرے بازی کی گئی جبکہ احتجاج کا چہرہ ہر حال میں قومی اور عوامی رکھنا تھا۔نتیجے میں جامعہ ملیہ اسلامیہ،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبا کے خلاف یکطرفہ پولیس کا رروائی ہوئی جس کے نتیجے میں بے گناہ لڑکے مارے گئے،سینکڑوں کی تعداد میں زخمی ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں گرفتار ہوئے۔ ان مظلومین کی دست گیری کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے۔مظاہرے آگے بھی جاری رہیں گے۔
لیکن یہ لڑائی صرف سڑک پر نکلنے سے کسی نتیجے پر نہیں پہونچے گی،الٹے ملت کو بھاری مالی اور جانی نقصان اٹھانا پڑے گا۔ کیونکہ یہ لڑائی عقلی بھی ہے، نظری بھی،قلمی بھی ہے،قانونی بھی،سڑک کی بھی ہے اور سنسد کی بھی۔ سڑک پر نکلنے کے ساتھ ساتھ مقامی سطح پر ہی صحیح نئی قیادت ابھارنے کی ضرورت ہے۔ پورے ہندوستان میں ایک ایسی چھتری تنظیم کی ضرورت ہے جس کے نیچے پیشہ ور سیاست دانوں اور تھوک بھاؤ میں ملت کو بیچنے والے ملّاؤں سے الگ علما،دانشوروں،وکلا،قلم کاروں،صحافیوں، اساتذہ اور اسکالروں کی ایک چست ٹیم تیار ہو اور قومی سطح پر اس پوری تحریک کی قیادت کرے۔سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ علما کی قیادت کو ماننے سے انکار کیا گیا تو پھر نئے سرے سے علما کو کیسے شامل کیا جا سکتا ہے۔ اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ جو علما آر ایس ایس کے ساتھ اپنے ڈھکے چھپے یا کھلم کھلا تعلقات کی وجہ سے نگاہ میں آ چکے ہیں ان کو چھوڑ کر دیگر معتبر علما کو مشاورت اور قیادت میں لیا جائے یعنی مسماری کے عمل میں جو ڈھہ گیا اسے ملبے میں چھوڑ دیا جائے لیکن جو باقیات رہ گئے ہیں ان پر نئی قیادت کی تعمیر کا دیانت دارانہ عمل پوری ہوشیاری کے ساتھ شروع کیا جائے اور یہ پیغام عام رہے کہ کسی بھی صورت میں اب ملت کا سودا کرنے کی اجازت کسی کو نہیں دی جائے گی۔
(مضمون نگار سرکردہ صحافی،ممتاز جدید شاعراور انڈین مسلم اویرنس موومنٹ (امام)کے بانی ہیں)
اشہر ہاشمی
اس وقت جب کہ ہندوستان میں مسلمان تاریخ کے ایک بڑے جبر سے دوچار کر دیا گیا ہے اس پر فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنی اجتماعی ذکاوت کو تحریک دے کر ایک ایسا ماحول بنانے میں کامیاب ہو جس میں تصور ہندوستان کی سلامتی اور بقا یقینی بن سکے۔ شہریت ترمیمی بل،آبادی کا قومی رجسٹر اور ملک بھر میں ممکنہ قومی شہری رجسٹر سے جو ہیجان پیدا ہوا ہے اس ہیجان کی بنیاد اس فہم میں ہے کہ ہندوستانی مسلمان کا وجود خطرے میں پڑ گیا ہے۔ ملک کی قیادت اس وقت دو ایسے کم پڑھے لکھے لوگوں کے ہاتھ میں ہے جن کو ہندو،ہندوستان،تاریخ،اقتصادیات،دینیات،فلسفہ اور سیاست میں سے کسی چیز کی مکمل سمجھ نہیں ہے۔ وہ ایک محدود زاویے سے انسان اور انسانیت دونوں کو دیکھتے ہیں اور انہوں نے اپنی اسی محدود سمجھ کو ہندوستانی عوام کی فکر اور عمل کا حصہ بنانے کی لگاتار کوششیں کیں اور ملک کو ہندو اور مسلمان کے بیچ ایک گہری تقسیم سے دوچار کرنے کا آخری حربہ بھی استعمال کر لیا لیکن یہی داؤں وزیر اعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کو الٹا پڑ گیا۔ ہندوستانی مسلمان کے وجود کو نیست ونابود کرنے کی کوشش میں ان دونوں نے ایسا ماحول بنایا جس میں ہندوستانی آئین کی بھیانک خلاف ورزی ہو گئی اور بلا تفریق مذہب وملت پورا ہندوستان سڑکوں پر آگیا۔ ان مظاہرین میں مسلمان بھی شامل ہوئے لیکن عاقبت نا اندیشی کی وجہ سے مسلمانوں کی شرکت،مسلمانوں کا غلبہ بنتی دکھا ئی دی اور پولیس نے ان مظاہروں کو مسلمان بمقابلہ پولیس بنا دیا۔
اگر دیکھا جائے کہ اس میں ہوا کیا ہے تو دو اہم باتیں ابھر کر سامنے آتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ مسلمان کا ضبط ختم ہوگیا۔ ماب لنچنگ ہوئی مسلمان خاموش رہا، جبری تبدیل مذہب کی وارداتیں ہوئیں مسلمان خاموش رہا، لو جہاد کا نعرہ لگا مسلمان خاموش رہا،تین طلاق بل آیا مسلمان خاموش رہا، بابری مسجد آراضی کی ملکیت کا مقدمہ سپریم کورٹ سے فیصل ہونے کی بجائے پنچایت میں بدل گیا، مسلمان خاموش رہا۔ کیونکہ مسلمان سڑکوں پر نکل کر دیگر برادران وطن کے ساتھ اسٹیٹ کے خلاف، پولیس کے خلاف اپنے لئے منفی جذبات نہیں ابھارنا چاہتا تھا۔ اس دوران آرایس ایس نے ایک ایک کر کے تمام بااثر علما،آئمہ،مشائخ کو نہ صرف اپنے جال میں لیا بلکہ ایک منصوبہ بند طریقے سے ان ملی رہنماؤں کو ہندوستانی مسلمان کے سامنے بے نقاب بھی کرتا چلا گیا۔نوبت یہاں تک پہنچی کہ ہندوستانی مسلمان نے ملی رہنماؤں کو اپنا رہنما ماننے سے صاف انکار کردیا۔ ہندوستانی مسلمان کا آج کا بیانیہ یہ ہے کہ کوئی بھی عالم،امام،شیخ یا کسی بھی طرح سے مسلم کلرجی کا رکن کوئی شخص مسلمانوں کا نمائندہ نہیں۔ اس کا ہر بیان ذاتی بیان ہے ملت کی ترجمانی نہیں۔ یہ زوال دو طرف سے آیا ایک تو علما،آئمہ اورمشائخ نے اپنی ملی ذمہ داریوں کی طرف سے قابل گرفت غفلت برتی۔دوسرے اس زعم میں رہے کہ انہیں مسلم معاشرے میں جو احترام حاصل ہے اس کی بنیاد پر وہ ملت کا سودا تھوک بھاؤ میں کسی کے ساتھ بھی کر سکتے ہیں۔ یہ مثالیں سب کے سامنے ہیں کہ ہمارے علما،آئمہ اور مشائخ نے انتہائی بے رحمی کے ساتھ ہمارا سودا کیا۔کبھی کانگریس کو بیچا،کبھی سماج وادی پارٹی سے سودا کیا،کبھی مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی کے ساتھ معاملات کئے۔کبھی لالو سے،کبھی نتیش سے،کبھی دیو گوڑا سے،کبھی ممتا بنرجی سے،کبھی کے سی راؤ سے،کبھی جگن سے،کبھی کے چندرا بابو سے ملت کا سودا کرتے رہے اور اس سودا بازی میں اس کا بالکل لحاظ نہیں رکھا کہ ملت گائے بکریوں کا ریوڑ نہیں انسانی سرمایہ ہے اور انسانی سرمایہ کو اس کی مرضی کے بغیر بیچا جائے تو ایک طرح کی بد دلی پیدا ہوتی ہے۔ آخر میں جب آر ایس ایس کے ساتھ ملت کی خاموشی کا سودا کیا گیا اور آرایس ایس نے اس سودا بازی کو بے نقاب بھی کر دیا تو ملت نے اپنے ملی رہنماؤں سے اپنے آپ کو دور رکھنے کا اعلان کیا یعنی ملی قیادت کی مسماری کا اہتمام دو طرف سے ہوا۔ علما،آئمہ،مشائخ کسی نہ کسی چیز کے عوض ملت کی خاموشی بیچ کر اس داخلی طاقت سے محروم ہوگئے جس کی بنا پر وہ عوام میں ہوتے تھے اور دوسری طرف آرایس ایس نے پورے ہندوستان کو یہ بتایا کہ مسلمانوں کی قیادت خریدی جا سکتی ہے۔ گوکہ علما،آئمہ اور مشائخ نے باربار اپنا بیانیہ بدلا۔ تقاضہ،تدبر،حکمت جیسے الفاظ سے اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالا دینے کی کوشش کی لیکن تب تک معاملات بگڑ چکے تھے۔ ملت میں یہ سوالات اٹھنے لگے تھے کہ غریب اور کمزور مسلمانوں کی دستگیری کے لئے جو تمام ادارے مسلمانوں میں قائم کئے گئے ہیں ان اداروں کا پورا پورا استعمال مولویوں کو بنانے کے لئے کیا جاتا ہے۔ فطرہ،زکوٰۃ،خیرات،صدقات،چندہ،نذرانہ،چرم،چاول،آٹا،ٹوپااور فیاضی جیسے تمام اداروں سے ملت کا جو پیسہ دیگر ہم مذہبوں کی دستگیری کے لئے استعمال ہو، ہو سکتا ہے وہ سیدھے مدرسوں میں جا رہا ہے اور مدرسوں میں تعلیم پا کرہر سال ہزاروں کی تعداد میں ایسے لڑکے باہر نکل رہے ہیں جو اپنی تعلیم اور تربیت سے قوم کی خدمت کرنے کے بجائے ہر بظاہر مفت قیمت کے بدلے فیس وصول کرتے ہیں اور اوپر سے یہ تقاضا بھی کرتے ہیں کہ ملت اسلامیہ کے دیگر لوگ ان کے ہاتھ چومیں،پیر چومیں،پان کی پیک تھوکنے کے لئے ان کی سلابچی ہاتھوں میں لئے کھڑے رہیں۔یہ برسوں کا جمع ہوا غصہ تھا جو ملّائیت کے خلاف باہر نکل آیا اور ہندوستانی مسلمانوں نے ملی رہنماؤں کی قیادت کو قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ آرایس ایس کی حمایت میں بیان بازی کا سلسلہ اب بھی نہیں تھما ہے۔کچھ لوگ علمائے حق اور علمائے سو کے درمیان فرق کھڑا کرکے اس ذہنی رو کو بہکانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن یہ ملت کے ہمدرد نہیں بلکہ مسلم کلرجی کے وہ تنخواہ دار ہیں جن کے ذمہ ہر مخالف کو خاموش کرنے کے لئے پراکسی جنگ چھیڑنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ یہ صورت حال خطرناک ہے کیونکہ غصے میں جو بھیڑ باہر نکلی اس کو سمت دکھانے والا کوئی نہیں تھا۔ جمعہ جلوس نکالے گئے،سبز پرچم لہرایا گیا،اشتعال انگیز نعرے بازی کی گئی جبکہ احتجاج کا چہرہ ہر حال میں قومی اور عوامی رکھنا تھا۔نتیجے میں جامعہ ملیہ اسلامیہ،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبا کے خلاف یکطرفہ پولیس کا رروائی ہوئی جس کے نتیجے میں بے گناہ لڑکے مارے گئے،سینکڑوں کی تعداد میں زخمی ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں گرفتار ہوئے۔ ان مظلومین کی دست گیری کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے۔مظاہرے آگے بھی جاری رہیں گے۔
لیکن یہ لڑائی صرف سڑک پر نکلنے سے کسی نتیجے پر نہیں پہونچے گی،الٹے ملت کو بھاری مالی اور جانی نقصان اٹھانا پڑے گا۔ کیونکہ یہ لڑائی عقلی بھی ہے، نظری بھی،قلمی بھی ہے،قانونی بھی،سڑک کی بھی ہے اور سنسد کی بھی۔ سڑک پر نکلنے کے ساتھ ساتھ مقامی سطح پر ہی صحیح نئی قیادت ابھارنے کی ضرورت ہے۔ پورے ہندوستان میں ایک ایسی چھتری تنظیم کی ضرورت ہے جس کے نیچے پیشہ ور سیاست دانوں اور تھوک بھاؤ میں ملت کو بیچنے والے ملّاؤں سے الگ علما،دانشوروں،وکلا،قلم کاروں،صحافیوں، اساتذہ اور اسکالروں کی ایک چست ٹیم تیار ہو اور قومی سطح پر اس پوری تحریک کی قیادت کرے۔سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ علما کی قیادت کو ماننے سے انکار کیا گیا تو پھر نئے سرے سے علما کو کیسے شامل کیا جا سکتا ہے۔ اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ جو علما آر ایس ایس کے ساتھ اپنے ڈھکے چھپے یا کھلم کھلا تعلقات کی وجہ سے نگاہ میں آ چکے ہیں ان کو چھوڑ کر دیگر معتبر علما کو مشاورت اور قیادت میں لیا جائے یعنی مسماری کے عمل میں جو ڈھہ گیا اسے ملبے میں چھوڑ دیا جائے لیکن جو باقیات رہ گئے ہیں ان پر نئی قیادت کی تعمیر کا دیانت دارانہ عمل پوری ہوشیاری کے ساتھ شروع کیا جائے اور یہ پیغام عام رہے کہ کسی بھی صورت میں اب ملت کا سودا کرنے کی اجازت کسی کو نہیں دی جائے
گی۔

(مضمون نگار سرکردہ صحافی،ممتاز جدید شاعراور انڈین مسلم اویرنس موومنٹ (امام)کے بانی ہیں)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here